Do you Like Story? 9
Summary rating from 1 user's marks. You can set own marks for this article - just click on stars above and press "Accept".
Accept
Summary 9.0 great

Kumrat Valley | کمراٹ کل اور آج

کمراٹ کل اور آج ۔

پانچ سال پرانے کمراٹ کی جنت نذیر وادی کو خیالوں میں بسائے ایک بار پھر کمراٹ کی جانب سفر جاری تھا ۔۔بچے بھی ساتھ تھے پورے راستے میں بچوں سے کمراٹ کے قصے اور اس کے حسن کی تابناکی بیان کرتا رہا ۔۔گذشتہ کی نسبت سفر بہت آرام دہ گزرا ۔۔مردان ،تخت بائ،درگئ ،مالاکنڈ اور دیگر شہری آبادی کو کاٹتے ہوے موٹر وے سیدھا چکدرہ تک لے گئ ۔۔۔چکدرہ سے باب کمراٹ تک وہی پرانی سڑک تھی ۔۔۔خلاف توقع باب کمراٹ سے شرینگل تک پختہ سڑک بن چکی تھی اور یہ سفر بہت جلد اختتام کو پہنچا ۔۔۔شرینگل سے تھل تک سڑک کا معاملہ کبھی خوشی کبھی غم کا سا تھا ۔۔۔تھل پہنچ کر پہلی فرصت میں کمراٹ جنگل کی جانب بے تابی سے گاڑی بڑھا دی کہ آرام اب کمراٹ ہی جاکر کریں گے ۔۔۔محکمہ جنگلات کے اکلوتے مہمان خانے یعنی گیسٹ ہاؤس کے پاس پہنچتے پہنچتے جیسے میرے خوابوں کی جنت حسن بن صباح کی عارضی جنت کی طرح برباد ہوچکی تھی ۔۔چشم تصور میں پرانا کمراٹ تھا لیکن حقیقت میں ترقی کے نام پر تباہ حال کمراٹ میرے سامنے تھا ۔۔۔جہاں کبھی تنہائیاں بستی تھیں وہاں رنگ برنگی مخلوق کا ایک جم غفیر تھا ،جہاں کبھی پختہ عمارت دیکھے نہ ملتی تھی وہاں درجنوں سیمنٹ بجری کے پہاڑ کھڑے کردیے گئے تھے جو قدرت کے اس کوہ قاف کو جابجا منہ چڑا رہے تھے ۔۔۔ٹین کے کھوکھوں کی جگہ فائبر کے تیار خیموں نے لے لی تھی ۔۔۔ایک جگہ تو کام شروع تھا اور ایک بہت بڑے ہورڈنگ پر سو کمروں پر مشتمل عظیم الشان ہوٹل کا منصوبہ درج تھا اور اس کے نگران وہاں کے سابق ایم پی اے تھے ۔۔۔کمراٹ مکمل طور پر کاروباری سرگرمیوں میں گھر چکا تھا ۔۔۔کمراٹ کی ہر چیز سے اخلاص تقریباً ختم ہوچکا تھا اور ان گزرتے ماہ وسال نے کمراٹ کو مکمل طور پر سونے کا انڈہ دینے والی مرغی میں بدل دیا تھا ۔۔جسے ہر کوئ ذبح کرنے کے چکر میں تھا۔گذشتہ کمراٹ میں ہمارے ٹین کے کھوکھے میں ٹھنڈ سے بچنے کے لیے ہمیں دو دو رضائیاں مہیا کی گئیں ۔۔۔لیکن موجودہ کمراٹ میں ہمیں ایک کمرے میں دو کمبل مہیا کیے گئے اور باوجود مانگنے کے بھی تیسرا کمبل نہیں دیا گیا کہ یہ ہمارے اصول کے خلاف ہے اگر آپ کو تیسرا کمبل چاہیے تو ایک اور کمرہ کرائے پر لے لیں ۔۔حالانکہ سامنے اوپر تلے درجنوں کمبل پڑے تھے ۔۔۔اخلاقیات اور مہمان نوازی کا جنازہ خود کمراٹ کے لوگوں نے معیشت کو امام بنا کر پڑھا دیا تھا ۔۔۔اس کا اندازہ مجھے کمراٹ میں گزری اس پہلی رات میں ہی ہوگیا ۔۔

صبح ہماری منزل کمراٹ آبشار اور کالا چشمہ تھی ۔۔۔کمراٹ آبشار تک کی راہ میں جابجا تعمیرات کا ایک جال بچھا ہوا تھا ۔۔۔دامن کوہ ہو یا پنجگوڑہ کا کنارہ کوئ جگہ بھی انسانی نام نہاد ترقی سے محفوظ نہ تھی ۔۔۔جابجا فطرت کا قتل عام جاری تھا ۔۔۔تعمیرات اور پھر اتنے سیاحوں کے لیے ایندھن کا بندوبست ۔۔۔اس کا کوئ معقول ذریعہ موجود نہ تھا ۔۔۔اور کمراٹ جنگل میں دیودار کی گونجتی چیخیں جنگل میں ہونیوالے اس قتل عام کی اطلاع دے رہی تھیں لیکن اس قتل عام کی نہ کوئ رپٹ تھی ،نہ کوئ ملزم نہ کوئ مدعی ۔۔۔

کمراٹ آبشار جو کبھی اپنے پاس آنیوالوں سے باتیں کیا کرتی تھی اور نغمعے سنایا کرتی تھی اس تک ایک طویل کھوکھا نما دوکانوں کی لمبی لائن بنی ہوئ تھی جہاں دنیا کے تمام مضر صحت مشروبات اکٹھے تھے ۔۔۔شاہد یہ لوگ اس حقیقت کو نہ سمجھ پائے تھے کہ لوگ یہاں اس آبشار کی پاکیزگی اور اس کا حسن دیکھنے آتے تھے جو قدرت نے اسے عطا کیا تھا ۔۔وہ حسن اور پاکیزگی دائمی تھی ۔۔جبکہ ہم نے اپنے تئیں ماؤنٹین ڈیو ،بگ ایپل ،پیپسی ودیگر مشروبات سے اس کا حسن دوبالا کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن ہم یہ بھول گئے کہ آبشار کے دامن میں بننے والے تالاب سے ایک چلو بھر پانی پینے والا ہمیشہ کی زندگی پاجاتا تھا کہ وہ فطرت کو اپنے اندر سمو لیتا تھا ۔۔۔ہم نے فانی دنیا کے فانی لوازمات سے اس دائمی حسن کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا ۔۔۔فطرت کب مداخلت مانتی ہے اور جو بے جا مداخلت کرتے ہیں ان کا انجام تباہی ہوتا ہے ۔۔۔کمراٹ آبشار تباہ ہوچکا تھا ۔۔۔

میں عبداللہ کا ہاتھ تھامے احمد کے پیچھے چلتا ہوا کمراٹ آبشار کی بلندیوں کی جانب بڑھنے لگا جہاں فطرت کا حسن ابھی محفوظ تھا ۔۔۔کافی بلندی پر جاکر ایک بڑی طویل وعریض عمودی چٹان پر بیٹھ کر میں نے آبشار سے ایک طویل کلام کیا اس کے گلے شکوئے سنے ۔۔۔اپنی معروضات پیش کیں ،لوگوں کی مجبوریوں کا تذکرہ کیا قریب تھا کہ میں آبشار کو حضرت انسان کی بے گناہی پر قائل کرلیتا کہ عبداللہ نے ماؤنٹین ڈیو کا ڈھکن کھولا اور اسے منہ سے لگا لیا ۔۔۔۔آبشار کے مدھر نغمے گرجتی گڑگڑاہٹ میں تبدیل ہوگئے ۔۔۔۔۔۔

مکار دفع ہوجا ، نکل جا یہاں سے ،مجھے اپنی جھوٹی محبت میں پھنسانے آیا تھا ۔۔۔۔تمھارے خمیر میں بے وفائی ہے ۔۔۔تو آج مجھے یہاں پراگندہ کرنے آیا ہے اگر تو اپنے قول میں سچا ہوتا تو تیرا ساتھی ساتھ میں یہ گند یہاں نہ اٹھا لایا ہوتا ۔۔۔۔میرا کیا ہے میں تو پیچھے بہت پیچھے اپنے مرکز کی طرف چلی جاؤں گی لیکن یاد رکھنا تمھارے پاس غلاظت کے سوا کچھ نہ رہے گا ۔۔۔۔

جہان ترلے کیے لیکن محبوب غلطی کی معافی دے چکا تھا لیکن بے وفائی کی معافی شاہد کوئ نہیں ہوتی ۔۔۔چپ چاپ عبداللہ کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔ماونٹین ڈیو دور پہاڑوں سے نیچے غل غپاڑہ کرتے نوجوانوں کی جانب اچھال دی ۔۔۔عبداللہ کی ماؤنٹین ڈیو کے غم کی چیخیں اور آبشار کی دھتکار آمیز گڑگڑاہٹ میرے کانوں میں گونج رہی تھی ۔۔۔ایک آخری نظر اپنے پاکیزہ محبوب پر ڈال کر واپس پلٹ آیا ۔۔۔آبشار پاکیزہ تھی ۔۔۔میں جھوٹا تھا مکار تھا ۔۔۔۔اسے دھوکا دینے آیا تھا ۔۔۔پکڑا گیا تھا اور اب شرمندہ شرمندہ واپس چلا جارہا تھا ۔۔۔۔نیچے آبشار کے تالاب میں لونڈے لپاڑے آم اور تربوز سے لطف اندوز ہورہے تھے اور چھلکے ایک دوسرے کو مار رہے تھے ۔۔۔تالاب کی تہہ غلاظت سے بھر چکی تھی ۔۔۔۔اپنے ٹوائلٹ تک کو صاف اور چمکا کر رکھنے والے مہذب افراد کی اصلیت یہاں کھل کر سامنے آرہی تھی۔۔۔یہ وہی مخلوق تھی جو اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ اٹھا کر دوسرے کے گھر کے سامنے رکھ کر انتہا درجہ کے صفائ پسند ہونے کے دعویدار ہوتے ہیں ۔۔۔اجتماعی سوچ پر انفرادیت کا غلبہ صاف نظر آرہا تھا ۔۔۔کاش ہم نے اس ملک کو اپنا سمجھا ہوتا اس کے درودیوار کی حفاظت اپنے گھر کی طرح کی ہوتی تو آج یہ دنیا میں پہلے نہیں تو پہلے دس نمبروں پے ضرور ہوتا ۔۔۔لیکن حکومت اور اداروں کو ذمہ دار ٹھہرا کر ہم ہرگز بری الزمہ نہیں ہوسکتے ۔۔کچھ نہ کچھ فرق تو ہم میں ہماری تربیت میں ضرور ہے ۔۔۔مجھ سمیت ہم سب کو اپنے گریبانوں سے ناف تک جھانکنا ہوگا ہمارے اندر دور کہیں ایک اور شخص بیٹھا ہے جس کا فعل ہمارے قول سے بالکل مخالف ہے جس دن ہم نے اس شخص کو تلاش کرلیا ہم اس ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال چکے ہونگے ۔۔۔۔

کمراٹ آبشار سے کالا چشمہ تک کے سفر میں ابھی ترقی پوری آب وتاب سے نہیں پہنچی تھی گوکہ جابجا ترقی کی آمد کے آثار تھے لیکن ابھی مکمل ڈیرے نہیں ڈال پائ تھی ۔۔۔دل میں اک خواہش اٹھی کہ اللہ کرے ارباب اختیار کو ہوش آ جائے اور ترقی کی راہ میں روکاوٹ ڈال پائیں ۔۔۔۔سوسال پہلے اکبر الہ آبادی نے کیا خوب کہا تھا

ترقی کی نئی راہیں جو زیر آسمان نکلیں

میاں مسجدکو نکلے اور حرم سے بیبیاں نکلیں

انسانی ترقی نے اخلاقیات اور اقدار کو کس حد تک پامال کیا ہے آج اگر اکبر ہوتے تو شاہد گنگ ہوجاتے ۔۔۔

خوبصورت راہوں پر چلتے چلتے کالا چشمہ پہنچ گئے مگر یہ کیا یہاں کالا تو کیا نیلا پیلا کسی قسم کا چشمہ موجود نہ تھا بلکہ ایک چائے ،کولڈ ڈرنک اور کھانے کا ہوٹل اور ایک دو کھوکھے اور بنے تھے جہاں چپس اور لیز کے پیکٹ لٹک رہے تھے اور ان کے خالی درجنوں پیکٹ سے پنجگوڑہ کا کنارہ بھرا ہوا تھا ۔۔۔دریا کے بیچوں بیچ خالی جگہ پر کرسیاں اور میزیں لگی تھیں اور مختلف علاقوں سے آئے سیاح وہاں شکم سیری کرکے باقیات کھلے عام پنجگوڑہ کی نظر کررہے تھے ۔۔۔شرم وحیا اور احساسات سے عاری لوگ ۔۔۔۔۔کون لوگ تھے یہ میں سمجھنے سے قاصر تھا کیایہ ملک ان کا نہ تھا ۔۔۔کیا یہ پنجکوڑہ کے وارث نہ تھے ۔۔۔۔کیا یہ ان آزاد فضاؤں کے آمین نہ تھے ۔۔۔۔اگر تھے تو پھر ایسا کیوں ۔۔۔۔کیا ہم اپنے گھروں میں کھانا کھا کر باقیات یونہی بکھیر دیتے ہیں ۔۔۔۔اگر نہیں تو اس کا مطلب ہے اس ملک کو ہم ہرگز اپنا گھر نہیں سمجھتے ۔۔۔۔میں نے تو سنا ہے بلکہ دیکھا بھی ہے کتا بھی بیٹھنے سے پہلے دم سے جگہ صاف کرلیتا ہے لیکن ہم بجائے صاف کرنے کے غلاظت پر غلاظت کے انبار لگائے جارہے ہیں ۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔؟

اس غیر انسانی رویے کی وجہ تعلیم نہیں بلکہ تربیت کا فقدان ہے ۔۔۔میں نے پڑھے لکھے جاہلوں کو کچرے سے بھرا شاپر ان گنہ گار آنکھوں سے پاکیزہ فضاؤں میں اچھالتے دیکھا ہے ۔۔

علامتی طور پر میں نے بچوں کو ساتھ لیا اور ایک مخصوص جگہ کا تعین کرکے وہاں کی صفائ شروع کی اور کچرا اکٹھا کرنا شروع کیا تاکہ باقی لوگ بھی میرا ساتھ دیں اور ہم اس جگہ کا دائرہ کار بڑھا دیں لیکن ایک گاڑی کے کھلے شیشے سے گرتے لیز کے خالی پیکٹوں نے مجھے مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا۔۔۔۔۔

بابا ہمارے صاف کرنے سے کیا ہوگا کل یہ جگہ پھر ویسی ہوگی ۔۔۔۔عبداللہ کی مایوس کن آواز آئ ۔۔۔۔

بیٹا مایوسی گناہ ہے ۔۔۔ہم اپنے حصے کا دیا جلا رہے ہیں کوئ اور اپنے حصے کا جلائے گا اور یوں دیے سے دیا روشن ہوتا رہے گا ۔۔۔۔۔بیٹا ہم آپ لوگوں کو پاکیزہ ماحول ،صاف آبشاریں ،معطر فضائیں،اور ایک نیا پاکستان دیکر جائیں گے انشاء اللہ۔۔۔۔۔۔

Kumrat Valley

نوید اشرف خان

واہ کینٹ

Related posts

Mother Is My strength

Mother Is My strength

I am a Muslim, born and raised in America. I was in 5th grade when the 9/11 incident happened and because of it, my life was destroyed. I was mercilessly bullied; class fellows smashed me against lockers, calling me a terrorist. What made matters worse was the fact that my birthday is on 9/11...

Story of a Gulmit Guy

Story of a Gulmit Guy

  I belong to an uneducated family. My eldest brother was only matric passed. But my younger brother is more educated because I managed to set a better example for him. I went to Karachi for further studies as it was an inexpensive city to live in. I took admission in the Federal Urdu...

Old days of my life

Old days of my life

ایک وہ وقت بھی تھا جب "دوکاندار کے پاس کھوٹا سکا چلا دینا ہی سب سے بڑا فراڈ سمجھا جاتا تھا۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب: ٭ماسٹر اگر بچے کو مارتا تھا تو بچہ گھر آکر اپنے باپ کو نہیں بتاتا تھا۔ اور اگر بتاتا تو باپ اْسے ایک اور تھپڑ رسید کردیتا تھا ٭یہ وہ دور تھا جب ’’اکیڈمی‘‘کا کوئی...

Ukraine and Russia Current story

Ukraine and Russia Current story

یوکرین پہلے روس کا ہی حصہ تھا. 1919 میں روس میں شامل ھوا اور پھر 1991 میں الگ ھو گیا. میں روس اور یوکرین کے جھگڑے پر لکھوں گا لیکن ایک بہت ہی سبق آموز بات بتانا چاھتا ھوں. یوکرین ، روس سے علیحدگی کے وقت ایٹمی طاقت تھا. نیٹو اتحاد نے یوکرین سے اپنا ایٹمی پروگرام ختم کرنے کی درخواست کی اور اس...

Story of Love Husband & wife

Story of Love Husband & wife

  "Our marriage lasted for 27 years and 2 months. She was sick. The gynaecologist was trying her best to save her life. But it was her time. I did not realize it while we were together but my whole world fell apart when she passed away. Spouses fight, and have arguments every second day...

Story of Friendship ,Spread Love

Story of Friendship ,Spread Love

      I noticed Zohra every now and then passing by our house to reach the langar ‘communal meal’. I felt sad every time I noticed her family eating by the roadside. A few days later, I was playing outside with my brother when she asked me if I can give her a glass of...

Leave a Reply